اجیت کے منفی کرداوں سے فلم کے ہیرو کی چمک بھی ماند پڑی

Aawami News Desk

برسی 22 اکتوبر کے موقع پر خاص
ممبئی: اپنی منفرد اداکاری ، مکالمہ نگاری ،سخت محنت اور جدوجہد کے لیے مشہور اداکار اجیت نے بالی ووڈ میں ایک الگ مقام حاصل کیا۔اجیت، جن کا اصل نام حامد علی خان تھا، 27 جنوری 1922 کو گولکنڈہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی انہیں اداکاری کا شوق تھا۔ ان کے والد بشیر علی خان حیدرآباد میں نظام کی فوج میں کام کرتے تھے۔ اجیت نے اپنی ابتدائی تعلیم آندھرا پردیش کے وارنگل ضلع سے حاصل کی۔چالیس کی دہائی میں انہوں نے ہیرو بننے کے لیے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور اپنے اداکاری کی زندگی کا آغاز 1946 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘شاہ مصر’ سے کیا۔ بلاشبہ 1946 سے 1956 تک اجیت نے فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے کے لیے سخت محنت کی۔1950 میں ہدایتکار کے. امرناتھ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنا فلمی نام چھوٹا کریں۔ اس کے بعد انہوں نے حامد علی خان کی جگہ اپنا فلمی نام اجیت رکھا ۔ دو تین فلموں میں ہی ان کا نیا نام ’اجیت‘ رکھ دیا گیا۔ اور اس کے بعد حامد علی خان تاحیات اجیت کے نام سے ستارہ بن کر چمکتے رہے۔1957 میں بی- آر- چوپڑا کی فلم ‘نیا دور’ میں وہ ایک دیہاتی کردار میں نظر آئے۔ اگرچہ یہ فلم مکمل طور پر اداکار دلیپ کمار کے گرد مرکوز تھی، لیکن اجیت نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں اپنی خاص جگہ بنا لی۔ نیا دور کی کامیابی کے بعد اجیت نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اداکاری کا جادو منفی کرداروں میں دکھائیں گے۔سال1960 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘مغل اعظم’ میں بھی ان کے سامنے دلیپ کمار تھے، لیکن اجیت نے اپنی مختصر مگر مؤثر اداکاری سے ناظرین کی تعریف حاصل کی۔1973 اجیت کے سینی کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس سال ‘زنجیر’، ‘یادوں کی بارات’، ‘سمجھوتا’، ‘کہانی قسمت کی’ اور ‘جگنو’ جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں نے باکس آفس پر نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ان فلموں کی کامیابی کے بعد اجیت نے وہ بلندی حاصل کی جس کے لیے وہ اپنے خوابوں کے شہر ممبئی آئے تھے۔
ممبئی اداکار اجیت نے اپنے فلمی کیریئر میں کئی یادگار کردار ادا کیے، لیکن ان کا سب سے پسندیدہ اور کبھی نہ بھلانے والا کردار 1976 میں ریلیز ہونے والی فلم کالی چرن میں تھا، جسے سوبھاش گھئی نے پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا تھا۔فلم کالی چرن میں اجیت کا کردار "لائن” بن گیا، اور ان کے اس کردار کا مشہور ڈائیلاگ: "سارا شہر مجھے لائن کے نام سے جانتا ہے” آج بھی عوام میں کافی مقبول ہے ۔ اسی طرح ان کے دوسرے مشہور ڈائیلاگ للی ڈونٹ بی سلی” اور "مونا ڈارلنگ” بھی شائقین کے درمیان کافی مقبول ہوئے۔کالی چرن کی کامیابی کے بعد اجیت کے کیریئر میں زبردست تبدیلی آئی اور وہ منفی کرداروں کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنے شاندار اداکاری سے ناظرین کی تعریف حاصل کرتے رہے۔منفی کردار کی بہترین ادائیگی میں ہیرو کے کردار کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے، اسی وجہ سے اجیت نے دھرمیندر کے ساتھ کئی فلموں میں اپنی اداکاری کا جادو دکھایا۔ ان کی مشہور فلمیں جن میں دھرمیندر کے ساتھ کام کیا ان میں یادوں کی بارات، جگنو، چرس، آزاد، رام بلرام، رضیہ سلطان، راج تلک ہیں1990 کی دہائی میں اجیت نے صحت کے مسائل کی وجہ سے فلموں میں کام کم کر دیا، لیکن اس دوران بھی انہوں نے فلموں جیسے جگر، شکتی مان، آدمی، آتش، آ گلے لگ جا، اور بے تاج بادشاہ میں اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا۔تقریباً چار دہائیوں کے فلمی کیریئر میں اجیت نے 200 سے زائد فلموں میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔سخت تاثرات والے اجیت نے بطور ہیرو 88 فلموں میں کام کیا لیکن ہٹ محض ایک ’بے قصور‘ رہی۔ نوتن اور نرگس کو چھوڑ کر اجیت نے اس دور کی تقریباً تمام ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ معاون اداکار کے طور پر دلیپ کمار کے ساتھ ’نیا دور‘ اور ’مغل اعظم‘ میں اجیت نے ثابت ضرور کیا کہ وہ اداکاری میں کسی بھی طرح کمزور نہیں ہیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ انہیں معاون اداکار کے طور پر انہیں کوئی یادگار کردار ادا کرنے کو نہیں مل سکا۔ رفتہ رفتہ اجیت کے پاس دوئم درجے کی فلمیں ہی رہ گئیں۔
اجیت کا سورج کچھ وقت کے لئے غروب ضرور ہونے لگا لیکن اس کے بعد ان کی زندگی میں نئی صبح روشن ہونے والی تھی۔ اپنے دوست اداکار راجیندر کمار کے کہنے پر اجیت نے فلم ’سورج‘ میں ویلن کا کردار ادا کیا۔ حالانکہ ان کی زندگی میں اہم موڑ 1973 میں آنے والی فلم ’زنجیر‘ لے کر آئی۔ اس فلم میں اجیت نے ایک ایسے صنعت کار دھرم پال تیجا کا کردار نبھایا جو بہت ہی ناپ تول کر خاص انداز میں گفتگو کرتا ہے۔جب زنجیر کے رائٹر سلیم-جاوید نے ان سے کہا کہ دھرم پال تیجا کے کردار کو مؤثر بنانے کے لئے اپنی طرف سے کچھ سوچیں تو اجیت کو فوراً حیدرآباد کے صنعت کار کی یاد آگئی۔ اجیت نے اس کے انداز میں ہی سلیم-جاوید اور ہدایت کار پرکاش مہرا کو ڈائیلاگ بول کر سنائے۔ تینوں کو اجیت کا یہ انداز بہت پسند آیا۔ اور یہی انداز ہمیشہ کے لئے اجیت کی پہچان بن گیا۔ ویلن بھی مہذب اور نرم لہجہ میں بات کرنے والا ہوسکتا ہے یہ اجیت نے ثابت کر کے دکھایا۔الفاظ کو مخصوص انداز میں جما جما کر بولنے کا ان کا انداز فلم ’یادوں کی بارات‘، ’جگنو‘، ’وارنٹ‘، ’کہانی قسمت کی‘، ’سنگرام‘ اور ’چرس‘ جیسی تقریباً 50 فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایسے ویلن کے طور پر پردے پر نظر آتے تھے جس کے سامنے ہیروں کی چمک بھی پھیکی پڑ جاتی تھی۔ ویلن کے دور بدلتے گئے لیکن اجیت کو اپنا انداز بدلنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن ایک دن تو انہیں اداکاری سے سبکدوش ہونا ہی تھا۔اجیت اکثر سیٹ پر تیار ہو کر فلم کے ہیرو کا انتظار کرتے رہتے تھے اور فلم کا ہیرو سیٹ پر کافی دیر سے پہنچتا۔ بے شمار فلموں کا سفر طے کرنے والے اجیت کے لئے یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا اور ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کریں گے۔اس کے بعد اجیت حیدرآباد میں رہنے لگے اور دھیرے دھیرے خبروں سے غائب ہوگئے۔ ممبئی کی فلمی دنیا میں کئی لوگوں کو لگا کہ شائد اجیت اب دنیا میں نہیں رہے، ایک دن اجیت نے دوبارہ پردے کا رُخ کیا۔ وہ جس طرح اچانک سے چلے گئے تھے اسی خاموشی سے لوٹ بھی آئے۔کریمنل ان کی آخری فلم تھی۔ 23 اکتوبر 1998 کو اجیت انتقال کر گئے لیکن لائن آج بھی مرا نہیں وہ آج بھی اپنے جاندار ڈائیلاگ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

Share This Article
Leave a comment