جنگ بندی خطرے میں نہیں پڑے گی: ٹرمپ
غزہ،واشنگٹن، 20 اکتوبر (یو این آئی) اسرائیلی فورسز نے فضائی حملے کرکے غزہ شہر کے ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 24 بچوں سمیت 91 فلسطینی شہید ہوگئے اور متعدد افراد ملبے تلے دب گئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے امریکی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات بھر کے دوران غزہ میں کم از کم 91 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، جن میں کم از کم 24 بچے شامل ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ’جوابی کارروائی‘ کی ہے، کیوں کہ ایک سپاہی مارا گیا تھا، لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ بھی جنگ بندی کو خطرے میں نہیں ڈالے گا، حماس کو مناسب برتاؤ کرنا ہوگا۔
غزہ میں یہ اموات اُس وقت ہوئی ہیں، جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ’طاقت ور‘ حملوں کا حکم دیا، اسرائیلی فوج نے بعد میں تصدیق کی کہ ایک اسرائیلی سپاہی مارا گیا تھا۔
اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں اب تک کم از کم 68 ہزار 527 فلسطینی شہید ایک لاکھ 70 ہزار 395 زخمی ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر، 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
الجزیرہ عربی نے اطلاع دی کہ صبح سویرے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ کے شمال میں واقع گاؤں عطّارہ میں اسرائیلی آبادکاروں کے گروہ نے فلسطینیوں کی ملکیت والی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
اکتوبر 2023 سے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو اسرائیلی آبادکاروں اور فوج کی جانب سے حملوں اور ہراسانی کی شدید لہر کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم ایک ہزار 59 فلسطینی شہید، تقریباً 10 ہزار زخمی ہوچکے ہیں اور 20 ہزار سے زائد فلسطینی گرفتار کیے جا چکے ہیں، جن میں ایک ہزار 600 بچے بھی شامل ہیں۔
الجزیرہ کی جانب سے رپورٹ کیا گیا ہے کہ مرکز برائے تنازعات اور انسانی مطالعات کے نان ریذیڈنٹ فیلو معین ربانی کے مطابق، اسرائیل دانستہ طور پر جنگ بندی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس معاہدے کو امریکا کے دباؤ پر اسرائیل نے مجبوری میں قبول کیا تھا۔
معین ربانی نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ اسرائیل نے کبھی بھی اس معاہدے کے تحت اپنی کسی بھی ذمہ داری کو حقیقتاً پورا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی موجود تھی، لیکن اسرائیل پہلے ہی 100 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے، اسرائیل نے غزہ میں طے شدہ حد تک اپنی فوجیں پیچھے ہٹائیںنہ ہی متفقہ مقدار میں امداد کو داخل ہونے دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب اسرائیل ایک طرف تو یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ ملبے کے نیچے لاشوں کی تلاش کے لیے درکار بھاری مشینری کے داخلے کو روکا جائے، اور دوسری طرف انہی تاخیری وجوہات کو (جو قدرتی طور پر متوقع تھیں) معاہدے کو کمزور کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
ربانی نے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسرائیل خود سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کو ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں سمجھتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لہٰذا جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ معاہدے کو بتدریج ختم کرنے کا عمل ہے، اب اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گا۔
آج صبح تک جو معمولی سی امید تھی کہ شاید حالات پرسکون رہیں گے، وہ مکمل طور پر مایوسی میں بدل گئی ہے، آسمان جنگی طیاروں، ڈرونز اور جاسوس جہازوں سے بھرا ہوا ہے۔
اب تک اطلاعات کے مطابق 91 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
مرکزی غزہ میں مارے جانے والے 42 افراد میں سے 18 ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، 3 نسلیں ایک ہی حملے میں ختم ہو گئیں، بچے، ان کے والدین اور دادا دادی سب شہید ہو گئے۔


