اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی مجھے ضرورت نہیں اودھ کے شاہی خاندان کے چشم وچراغ کامران مرزا کی بلند ہمتی
کولکاتا،10نومبر: اودھ کے رئیس خاندانی شرفاءجو اس وقت کولکاتا میں سکونت پذیر ہیں اور اس زمانے کو یاد کیا جب جنگ آزادی میں انہوں نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جانوں کو نثار کرنے میں بھی پیچھے نہیں ہٹے تھے۔حتیٰ کہ فرنگیوں کے خلاف بھی انہوں نے مذاکرے میں کوئی بھی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ گزاشتہ دنوں یو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ1857 کی پہلی جنگ آزادی میں ان کے آباو اجداد نے بہادری کا ثبوت دیئے تھے انہوں نے سارا کچھ قربان کر دیا اور مہاجر بنے پھر بھی برٹش حکومت کے سامنے سرنگوں نہ ہونے اس معاملے میں ہم لوگ کسی بھی مذاکرے سے پہلو تہی کرنے والے نہیں ہیں کیا اس کے باوجود بھی ہم لوگ کو اپنی جانثاری کا ثبوت فراہم کرنا پڑے گا۔ ہم لوگ خم ٹھونک کر کہتے ہیں کہ ہم لوگ اسی مٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی ہمارا مادر وطن ہے۔ اس بات کی کھل کر توثیق کامران علی مرزا نے کی جو نواب واجد علی شاہ کے پڑ پوتے ہیں اور اودھ شاہی حکومت کے نواب واجد علی شاہ گیارہویں نواب تھے۔ جن کو کولکاتا میں جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔47 برس کے مرزا جو پیشے سے کمپیوٹر ہارڈ ویئر انجینئر ہیں۔ اس زمانے میں بھی جب نواب مرزا اسکول میں پڑھتے تھے تو ان کے اسکول کے ساتھی کو اس کا علم ہی نہیں تھا کہ ان کے آبا و اجداد نے1857 کی جنگ آزادی میں بہادری کے جوہر دکھائے تھے اور برٹش حکومت کے سامنے ڈٹے رہتے تھے۔ اب مگر وہ دل بر داشتہ ہیں کیونکہ آج کے مسلمان طبقے کے اندر ملک کے تئیں وہ جوش و جذبہ نہیں ہے اور نہ ہی حب الوطنی کا کوئی دینوانگی۔ آج کی ذہنیت میں کافی فرق ہے سبھی تعیش پسند اور آرام کوشی کے دلدادہ ہیں۔
کامران علی مرزا جو اس وقت رپن اسٹریٹ میں رہتے ہیں اور اسکول کی زندگی انہوں نے سیفی ہال میں گزارہ یہاں سے فارغ ہو کر مزید تعلیم کے لئے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ حالانکہ بعد میں انہوں نے مولانا آزاد کالج سے انگریزی ادب کی بھی سند لی۔ اس کے بعد کمپیوٹر ہارڈ ویئر انجینئر ہیں انہوں نے ریڈ پیٹ سر ٹیفکٹ حاصل کی۔ ابھی کولکاتا میں وہ کمپیوٹر بزنس چلا رہے ہیں انہوں نے پر زور طریقے سے کلکتہ نام کو پسند کیا تھا بجائے کولکاتا کے کیونکہ پرانا نام انہیں اچھا لگتا ہے اور اس بات پر بھی فخر ہے کہ وہ جلا وطن نواب کے خاندان سے ہیں۔ جنہوں نے ملک سے وفاداری نبھاتے ہوئے برٹش حکومت کے سامنے پسند رہے اور مطیع ہونے کے خلاف، جس کی پاداش میں انہیں جلا وطنی کی زندگی کولکاتا کے مٹیا برج میں گزارنی پڑی۔ جس کی تہذیب و ثقافت ابھی تک وہاں جاری و ساری ہے۔
Comments are closed.