ندیا، یکم ستمبر: پرنب مکھر جی کی اس طرح رحلت کر جانے پر ہندوستانی سیاست میں جو کمی دیکھی گئی وہ پر ہونے والی نہیں۔ ملک کے انتظام و انصرام کے معاملے میں ایک بنگالی ہو کر جتنی اونچائی و ترقی پر وہ گئے تھے وہ ہر لحاظ سے قابل غور بات ہے۔ اس بلندی اور اونچائی تک اب شاید ہی کوئی اس مٹی کا لعل پہنچ سکے۔ ان کا جو اٹوٹ رشتہ ندیا ضلع سے تھا وہ الگ ایک موضوع ہے اس ضلع کے مقبول رکن اسمبلی آنند موہن بسواس کا ۳۸۹۱ءمیں کرشنا نگر بدھان سبھا کے ضمنی انتخابات میں ان کی تحریک انمٹ ہے۔ بحیثیت وزیر مالیات انہوں نے سرحدی علاقے میں ترقیاتی پروجیکٹ اسکیم کو تقویت دی تھی اس اسکیم میں اس وقت کرشنا گنج سمیت دیگر اضلاع کے ساتھ رانا گھاٹ کی بھی تجدیدی ہوئی اس کا افتتاح بھی انہوں نے کہا تھا۔ آنند بابو کو اس ضمنی انتخابات میں کامیاب بنا کر۳۸۹۱ءمیں کولکاتا کی ایک تقریب اے آئی سی سی کے جلسے میں انہوں نے پارٹی لیڈر اندرا گاندھی کو اس کا تحفہ دیا تھا۔ اندرا گاندھی کے مرنے کے بعد ان کی سیاسی زندگی میں کچھ اثر پڑا مگر ضلع کے لوگوں نے ان کی بھر پور پذیرائی کی۔ آنند بابو کے علاوہ سابق وزیر چارو مہیر سرکار، سابق ایم ایل اے رادھا رمن ساہا، نیل کمل سرکار، آربند منڈل ، سیف الدین احمد، بسو روپ مکھرجی برادر ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ دوبارہ سے کانگریس میں گئے تو بحیثیت وزیر انہوں نے ضلع کرشنا نگر، رانا گھاٹ، شانتی پور ، بیر نگر سمیت میونسپل علاقوں کو آبی اسکیم سے کافی فائدہ پہنچایا اور مالی اعانت بھی مختص کی۔ اس کے علاوہ پنچایت سمیتی کو بھی انہوں نے مالی مدد کی۔ ان کا سب سے بڑا کام تھا نور الحسن پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس و ریسرچ سے ایمس اسپتال جو مرکز سے منظوری بھی دلوادی جس کا افتتاح شنکر دیال شرما نے کیا تھا۔ اس وقت اس افتتاحی تقریب میں جیوتی باسو بھی تھے۔
Comments are closed.